24 ستمبر، 2025، 12:46 PM

ایران کے سفارتکاروں پر پابندیاں؛ واشنگٹن کا تہران کی سفارتی منطق سے خوف

ایران کے سفارتکاروں پر پابندیاں؛ واشنگٹن کا تہران کی سفارتی منطق سے خوف

امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر ایرانی سفارتکار آزادانہ مشاورت کر سکیں تو اس سے ان کی یکطرفہ پالیسیوں کے خلاف مضبوط عالمی تنقید ابھرے گی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، واشنگٹن کی جانب سے ایرانی سفارتکاروں اور ان کے اہل خانہ پر لگائی گئی سخت پابندیاں، جو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے گئے ہیں، امریکہ کے سفارتی رویے کی جانبدارانہ نوعیت کو دوبارہ واضح کرتی ہیں۔ یہ پابندیاں نہ صرف سفارتکاروں کی محدود نقل و حرکت کا باعث ہیں بلکہ ان کی روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ یہ پابندیاں ایران کی منطقی اور مستدل سفارتی کوششوں سے امریکہ کے خوف کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔

جنرل اسمبلی ایک عالمی فورم ہے جہاں ممالک اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور باہمی مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے امور کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایران نے حالیہ برسوں میں اس فورم میں فعال شرکت کے ذریعے اپنی خودمختار اور منطقی پوزیشن پیش کی اور کئی ممالک کو اپنے موقف کی قانونی اور اخلاقی بنیاد سے قائل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے ایرانی سفارتکاروں کی حرکت اور آواز کو محدود کرنے کی کوشش کی۔

امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر ایرانی سفارتکار آزادانہ مشاورت کر سکیں تو اس سے ان کی یکطرفہ پالیسیوں کے خلاف مضبوط عالمی تنقید ابھرے گی۔ لہذا یہ پابندیاں ایران کی آواز کو دبانے یا کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف دشمنانہ ہے بلکہ امریکہ کی سفارتی کمزوری اور ایرانی منطق سے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ، اس طرح کے اقدامات اقوام متحدہ کے فلسفہ اور اصولوں کے خلاف ہیں۔ اقوام متحدہ گفتگو، باہمی احترام اور تعاون پر قائم ہے، لیکن میزبان ملک کی جانب سے کسی رکن ملک کی آزادانہ شرکت کو روکا جائے تو یہ ادارے کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اس طرح کی پابندیاں امریکی میزبان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی اور اس کے بین الاقوامی وعدوں سے انحراف کی واضح مثال ہیں۔

واشنگٹن کے اس رویے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گفتگو اور تنقید صرف تب چاہتے ہیں جب وہ اپنی پالیسیوں کے مطابق ہو۔ جب مختلف یا تنقیدی آواز بلند ہوتی ہے تو وہ پابندی، دباؤ اور سخت اقدامات سے اسے خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی آزادی اظہار اور عالمی مذاکرات کے دعوے محض خالی نعرے ہیں۔

آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ ایران کی آواز کو محدود کرنے کی یہ کوشش، اگرچہ سفارتی سرگرمیوں کو مشکل بنا سکتی ہے، لیکن حقیقت میں امریکہ کی کمزوری اور دوہرے معیار کو دنیا کے سامنے لا دیتی ہے۔ عالمی سطح پر اب واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ نہ صرف مختلف آواز سننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ بین الاقوامی اداروں کی بنیادی میزبانی کے اصولوں کا بھی احترام نہیں کرتا۔ یہ صورتحال ایران کی سفارتی طاقت اور منطق کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ گفتگو کا ذریعہ، واشنگٹن کی پابندیوں کے باوجود، ایران کے لیے ایک مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہے۔

News ID 1935539

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha